اب سلیم نے دوست سے کہا کہ بھوک لگ رہی ہے کھانا کھلاؤ۔ دوست نے گھبراکر کہا: ’’بھائی میں تمہارا بوجھ نہیں اٹھاسکتا‘‘ سلیم نے کہا لیکن جج نے یہی فیصلہ سنایا تھا۔ دوست نے پچاس روبل‘ 32 بوری اناج اور ایک دودھ دینے والی گائے دے کر سلیم سے جان چھڑائی۔
سکندر علی
روس میں دو بھائی رہتے تھے‘ ایک امیر اور دوسرا غریب تھا۔ امیر کا نام جمیل اور غریب بھائی کا نام سلیم تھا۔ دونوں میں بنتی نہیں تھی۔ بات یہ تھی کہ جمیل سلیم کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سلیم کو ضرورت پڑی تو اس نے کچھ دیر کیلئے بڑے بھائی سے گھوڑا مانگا۔ سردیاں آنے والی تھیں اور اسے جنگل سے لکڑیاں لانی تھیں۔ جمیل چاہتا تو نہ تھا‘ پھر بھی اس نے گھوڑا دے دیا۔ سلیم جنگل سے لکڑیاں لے آیا۔ رات ہوگئی تھی۔ اس کے پاس رسی نہیں تھی اس لیے اس نے دروازے سے گھوڑے کی دُم باندھ دی۔ رات کو گھوڑا بھاگ گیا‘بھاگنے کیلئے اس نے زور لگایا تو دُم ٹوٹ گئی۔ سلیم بڑی مشکل سے گھوڑا ڈھونڈ کر واپس لایا مگر جمیل نے بغیر دم کا گھوڑا لینے سے انکار کردیا اور کہا: ’’میں تو کچہری میں تمہارے خلاف مقدمہ کروں گا‘‘دونوں بھائی شہر روانہ ہوگئے۔ شہر بہت دور تھا۔ راستے میں رات ہوگئی۔ جمیل کے ایک دوست کا گھر قریب ہی تھا۔ وہ دونوں اس دوست کے گھر ٹھہر گئے۔ جمیل اور اس کا دوست گھر میں آرام کرنے لگے سلیم کو گھر میں جگہ نہ ملی تو وہ چھجے (چھت) پر لیٹ گیا‘ لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ سوتے میں اس نے کروٹ لی تو وہ نیچے گرگیا۔ نیچے دوست کی بھیڑ بندھی ہوئی تھی وہ دب کر ہلاک ہوگئی۔ دوست کو بہت غصہ آیا اس نے کہا: ’’اب میں بھی تم پر مقدمہ کروں گا‘‘
اب تینوں شہر چل پڑے۔ راستے میں پل آیا۔ سلیم نے دو مقدمات میں سزا کے ڈر سے چھلانگ لگادی۔ نیچے ایک نوجوان اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر جارہا تھا۔ سلیم بوڑھے پر جاگرا‘ بے چارا بوڑھا وہیں مرگیا۔ نوجوان بھی مقدمہ کرنے کیلئے ان کے ساتھ ہوگیا۔
چلتے چلتے شہر آگیا تو وہ سب کچہری پہنچے۔ جج آیاکچہری لگنے سے پہلے سلیم باتھ جانے کے بہانے تینوں سے الگ ہوا اور چھپ کر جج کے پاس گیا اور ساری روداد اور اپنی غربت کی کہانی سنا ڈالی۔ جج خدا ترس تھا اس نے کہا فکر نہ کروتمہیں سزا بھی ایسی ملے گی کہ جس سے تمہیں فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔ جج صاحب آئے اور کچہری لگ گئی۔ جمیل نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ جج نے جمیل کے کیس کا فیصلہ سنایا کہ:’’جب تک گھوڑے کی دُم نہ نکل آئے‘ گھوڑا سلیم کے پاس رہے گا‘‘
اب دوسرا مقدمہ پیش ہوا۔ جمیل کے دوست نے کہا کہ سلیم نے میری بھیڑ کو کچل کر ماردیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ :’’جب تک سلیم دوست کو اس کی بھیڑ لاکر نہ دے‘ دوست اسے اپنے گھر میں ہی رکھے اور کہیں جانے نہ دے‘‘
دوست نے سوچا: ’’ایک تو میری بھیڑمرگئی دوسرے میں سلیم کو اپنے میں رکھو اور کھلاؤں پلاؤں۔ اس کا کیا بھروسہ‘ یہ دوسری بھیڑ کو بھی ماردے‘‘ دوست بہت پریشان ہوا۔
تیسرا مقدمہ کچہری میں پیش ہوا کہ سلیم نے پل پر سے کود کر بوڑھے کو ماردیا۔ جج نے فیصلہ دیا کہ بوڑھے کا بیٹا اور سلیم اسی جگہ جائیں نوجوان پل پر جائے اور سلیم پل کے نیچے کھڑا ہوجائے۔ نوجوان اس پر کودے اور اس کی جان لے لے۔
کچہری ختم ہوگئی اور چاروں باہر آئے۔ جمیل نے پریشان ہوکر کہا کہ میں دُم نکلنے تک انتظار نہیں کرسکتا۔ مجھے گھوڑے کی ضرورت ہے۔ تم مجھے میرا گھوڑا اسی حالت میں واپس کردو۔ سلیم نہ مانا اور کہا دُم نکلنے کا انتظار کرو۔ جمیل بہت پریشان ہوا۔ اس نے سلیم کی منت سماجت کرکے اور پانچ روبل (روسی سکہ)‘ 17 بوری اناج اور ایک بکری دے کر اپنا گھوڑا واپس حاصل کرلیا۔ اب سلیم نے دوست سے کہا کہ بھوک لگ رہی ہے کھانا کھلاؤ۔ دوست نے گھبراکر کہا: ’’بھائی میں تمہارا بوجھ نہیں اٹھاسکتا‘‘ سلیم نے کہا لیکن جج نے یہی فیصلہ سنایا تھا۔ دوست نے پچاس روبل‘ 32 بوری اناج اور ایک دودھ دینے والی گائے دے کر سلیم سے جان چھڑائی۔ آخر میں سلیم نوجوان کے پاس گیا اور کہا : ’’آؤ پل پر چلیں اور وہاں سے تم چھلانگ لگانا۔‘‘ نوجوان نے سوچا کہ اگرمیں اتنی اوپر سے کودوں گا تو مرجاؤں گا۔ اس نے بھی سلیم کو 200 روبل‘ 49 بوری اناج اور ایک بیل دے کر راضی کرلیا۔ سلیم جج کے پاس گیا اور اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر سلیم سارا مال لے کر خوشی خوشی گھر روانہ ہوگیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں